المیہ یہ ہے کہ پاکستان نے ریاستی سطح پر دہشت گردی کی واضح تعریف نہیں کی لیکن گزشتہ بائیس سال میں بہت سارے لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر مارا گیا، غائب کرایا گیا یا پھر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے۔
اسی طرح ماضی کے ان برسوں میں جب حکومت اور ریاستی اداروں نے چاہا اپنے کسی نقاد پر انسداد دہشت گردی کا مقدمہ قائم کردیا اور دوسری طرف بہت سارے لوگ اگر دہشت گرد کی تعریف پر پورا اترتے تھے، انہیں اس لیے آزادی کے ساتھ گھومنے دیا گیا کہ وہ ریاست یا حکومت کے لاڈلے تھے۔ عمران خان وہ سیاستدان ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ اپنے سیاسی مخالفین پر دہشت گردی اور غداری کے فتوے لگائے اور ان کی حکومت میں سب سے زیادہ سیاسی مخالفین ریاستی اداروں کی مدد سے گرفتار ہوئے۔
اسی طرح ریاستی اداروں پر جائز تنقید کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم ہوئے لیکن مکافات عمل کے قانون کے تحت 9مئی کو عمران خان کی جماعت کے لوگ نہ صرف سکیورٹی فورسز کی تنصیبات پر حملہ آور ہوئے بلکہ شہدا کی یادگاروں اور ایم ایم عالم کے جہاز تک کو جلا ڈالا۔ اب پی ٹی آئی کے مخالفین اس کو دہشت گرد جماعت کا طعنہ دے رہےہیں تو دوسری طرف عمران خان اور ان کےساتھی بار بار یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ ہم دہشت گرد کیسے ہوسکتے ہیں؟