Site icon کرون اسٹار نیوز

شب برأت

شب برأت مسلمانوں کے لئے ایک عظیم رات…ایک ایسی رات جس میں گناہوں کی معافی ملتی ہے، عذاب سے نجات کی رات، گناہوں کے بوجھ کو اتارنے کی رات، اس رات کے تقدس کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے۔

شعبان المکرم کے مبارک مہینے کی پندرہویں شب کو مسلمان عبادت کی خاص رات کے طور پر مناتے ہیں۔ اس رات کی عظمت ہمارے پیارے نبی ﷺ کی بے شمار احادیث سے ثابت ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ رات جس ماہ میں رکھی گئی ہے شعبان المعظم وہ خود بھی بے حد مقدس مہینہ ہے۔

اس کے بارے میں ارشاد نبویؐ ہے کہ”رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے جبکہ شعبان میرا مہینہ ہے”۔

شعبان المعظم کا پورا مہینہ ہی عظمت والا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آپؐ سے کہا کہ میں نے آپؐ کو اتنی پابندی سے روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا جتنا شعبان المعظم میں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ عائشہ اس ماہ میں اس سال مرنے والوں کی موت لکھی جا تی ہے کیا تم نہیں چاہتیں کہ جب میری موت لکھی جائے اس وقت میں حالت روزہ میں ہوں۔
اس رات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس رات اللہ تعالی بہت ہی بڑے گناہ (جیسے خود کشی ، شرک ، زنا وغیرہ) کے علاوہ تمام گناہ بخش دیتے ہیں۔ اس رات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس رات ہمارے اعمال کا حساب کتاب ہوتا ہے عمریں اور رزق وغیرہ لکھا جاتا ہے۔ اسی رات میں اس سال حج کی سعادت حاصل کرنے والوں کے نام بھی منتخب کئے جاتے ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمؐ فرماتے ہیں: کہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ آج شعبان المعظم کی پندرہویں شب ہے، آج اللہ تبارک و تعالیٰ اتنے لوگوں کو جہنم سے نجات دلاتا ہے جتنے بنی قلب کی بکریوں کے بال ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جو عداوت رکھتے ہیں، زنا کرتے ہیں، شرک کرتے ہیں، ظلم کرتے ہیں حرام کھاتے اور شرابی ہیں۔ (بعض مقامات پر قتل اور خود کشی کرنے والوں کا بھی ذکر آیا ہے)۔

ان تمام احادیث سے علماء نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر ان گناہوں سے سچے دل سے توبہ طلب کی جائے اور آئندہ ان گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے تو تمام مسلمانوں کی بخشش کر دی جائے گی۔

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ سے مروی ہے کہ حضور پاکؐ کا فرمان عظیم ہے کہ جب پندرہویں شب آئے تو اس میں پوری رات عبادت کرو اور دن میں روزہ رکھو کیونکہ اس روز اللہ تعالیٰ خاص کرم فرماتا ہے اور بندوں کو مخاطب کرتا ہے کہ آج کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اور میں اسے بخش دوں، کوئی ہے جو مجھ سے رزق مانگے اور میں اس کا رزق فراغ کر دوں کوئی ہے جو مصیبت میں ہے اور مجھ سے عافیت طلب کرے میں اسے مصیبت سے نکالوں۔

یہ ایک ایسی رات ہے جو ہم مسلمانوں کے عقائد کے مطابق سال کی اہم ترین رات ہے اس دن موت و زندگی کا فیصلہ ہوتا ہے، اس اعمال کا حساب لیا جاتا ہے، اسے شب برأ ت اس لئے کہا جا تا ہے برأت کے معنی چھٹکارے کے ہیں اور اس دن ہمیں جہنم کی آگ سے چھٹکارا حاصل ہو تا ہے۔ مسلمان اس رات جتنی فکر و لگن سے عبادت کریں کم ہے لیکن یہاں تو ماجرا ہی الٹا ہے۔ اس دن ہم اپنے بچوں کے ہاتھوں میں ہندوؤں کی طرح پٹاخے پھول جھڑیاں ، آتش بازی کا سامان دے دیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں آگ سے بچانے کے لئے بیٹھا ہو تا ہے اور ہم آ گ کو دامن میں بھر رہے ہوتے ہیں۔ کوئی جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ ہم شب برأت پر پٹاخے کیوں چلا رہے ہیں؟ ایک طرف تو ویسے ہی یہ پیسے کا ضیاع اور گناہ ہے اس پر ہم یہ گنا ہ اس مقدس رات میں کرتے ہیں جب ہمیں گناہوں سے بخشش کی طرف بلایا جا رہا ہوتا ہے۔
یہی نہیں آتش بازی کا سامان کئی ماہ پہلے سے تیار ہونا شروع ہو جاتا ہے، کئی بار حادثے بھی پیش آچکے ہیں گھریلو طرز کی ان فیکٹریوں میں کوئی مناسب اقدامات موجود نہیں ہوتے، بڑی مقدار میں یہ آتش بازی کا سامان مارکیٹ میں آجاتا ہے، یہی نہیں کھلے عام جگہ جگہ سٹالز لگا کر فروخت کیا جا رہا ہوتا ہے، اس طرح سے وہ بچے جن کے والدین انہیں سمجھاتے بھی ہیں ان کا بھی دل للچا جاتا ہے، آتش ہندوؤں کے تہوار دیوالی کا خاصہ ہے، کئی سو سال تک ساتھ رہنے کی وجہ سے جہاں ہمارے معاشرے نے ہندوؤں کی کئی منفی چیزیں اپنائی ہیں انہی میں سے ایک شب برأت پر آتش بازی بھی ہے، ہندوؤں کو پٹاخے پھوڑتے دیکھ کر ہمارا بھی اتنا دل للچایا کہ ہم نے بھی بغیر سوچے سمجھے اپنی ایک رات کو اس سے منسلک کر دیا، یہ منفی رجحان ہمارے ہاں اتنا زیادہ رچ بس گیا ہے کہ جہاں شب برأت کا نام آتا ہے خود بخود ذہن میں پٹاخوں، پھُل جھڑیوں کا نام بھی آجاتا ہے اور یوں ہم اس رات کو اللہ کی رحمتیں سمیٹنے کے بجائے اس کی ناراضی مول لینے میں مصروف ہو جاتے ہیں، کیا خو بصورت نعتیہ شعر ہے؂
عرش پر دھوم ہے فرش پر دھوم ہے
بدنصیبی ہے اس کی جو محروم ہے
پھر یہ آئے گی شب کس کو معلوم ہے
عام لطفِ خدا آج کی رات ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح اور غلط کی پہچان اوربحیثیت مسلمان اپنے عقائد پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے ! آمین۔

Exit mobile version