شرح سود میں اضافے سے عام شہریوں پر کیا اثر پڑے گا؟
پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کے رہائشی یاسر محمود نے 2017 میں کرائے کے مکان سے جان چھڑا کر اپنا گھر لینے کی نیت سے نجی بینک سے 30 لاکھ کا قرض لیا تھا۔ انہوں سوچا تھا کہ ہر مہینے گھر کے کرائے کی طرح بینک کی قسط ادا کر دیں گے تو 20 سال میں گھر اپنا ہوجائے گا۔
’بیوی کے زیور فروخت کیے۔ اپنی جمع شدہ رقم اور بینک سے لیے قرض کو ملا کر کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں ایک دو کمرے کا فلیٹ خریدا اور اہلخانہ کے ساتھ سکھ کا سانس لے کر فلیٹ میں رہائش اختیار کی۔ ہر مہینے تنخواہ آتی اور بینک کی قسط جمع ہوجاتی۔‘
یاسر محمود نے اردو نیوز کو بتایا کہ محدود وسائل اور گزشتہ 6 سالوں سے ایک ہی تنخواہ پر اب گزارا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور مہنگائی میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے۔
ایسے میں سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں ایک مرتبہ پھر ایک فیصد اضافے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
’جب قرض لیا تھا تو شرح سود 6 فیصد تھا اب 17 فیصد ہوگیا ہے۔ آمدنی تو بڑھی نہیں اور بینک کو ادائیگی کی رقم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں بینک کی قسط بھرنی بھی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔‘
پیر کو گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ شرح سود 16 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں بڑھتی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود میں 100 بیس پوائنٹس کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں عوام کا گزارا مشکل سے مشکل ہو گیا ہے، مرکزی بینک کی جانب سے جو اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں وہ تشیویشناک ہیں۔
شرح سود میں اضافے کا اثر کن پر پڑے گا؟
شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ شرح سود میں اضافہ محض نمبروں کی تبدیلی نہیں ہے، اس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑتا ہے۔
’ایسے افراد جنہوں نے پرسنل لون لیا ہو، گاڑی قسطوں پر لی ہو یا پھر گھر کے لیے قرضہ لیا ہے سب کی ادائیگیوں میں اضافہ ہوگا۔ اور یہ اضافہ اصل رقم پر نہیں بلکہ اصل رقم کے ساتھ جو سود کی ادائیگی کی رقم ہے اس مد میں جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ افراط زر یعنی مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے لوگوں کے لیے اب اشیا خورد و نوش کا حصول مشکل ہو رہا ہے اور مہنگائی کے ستائے شہری اب اپنے بچوں کی تعلیم، صحت سمیت دیگر شعبوں میں سمجھوتا کرنے پر مجبور ہیں۔
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر شاہد صدیقی کا کہنا تھا کہ مرکزی بینک کے مطابق ملک میں مہنگائی 24.5 فیصد پر ریکارڈ کی گئی ہے جو پڑوسی ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کے لیے گزارا کرنا کس حد تک مشکل ہوتا جارہا ہے۔
معاشی امور کے ماہر خرم شہزاد کے مطابق شرح سود میں اضافے کی ایک وجہ عالمی مالیاتی ادارے کی شرط بھی ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف شرح سود میں اضافے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ روپے کو بھی اصل حالت میں بحال کرنا پڑے گا اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے حساب سے ڈالر کی قیمت مقرر کرنی ہوگی۔
’ملک کی ترقی کی شرح کم ہے۔ ایسے میں شرح سود میں اضافے سے انڈسٹری کے لیے مزید مشکلات ہوں گی۔ ایک فیصد اضافے کا اثر عام آدمی تک پڑتا دکھائی دے گا۔‘