Site icon کرون اسٹار نیوز

پاکستان اور انڈیا کے درمیان مذاکرات دو طرفہ معاملہ ہے: امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ ’پاکستان اور انڈیا کے درمیان مذاکرات دو طرفہ معاملہ ہے، ہم جنوبی ایشیا میں علاقائی استحکام چاہتے ہیں۔‘

پریس بریفنگ کے دوران جب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس سے پوچھا گیا کہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے انڈیا سے امن مذاکرات پر زور دیتے ہوئے آمادگی ظاہر کی کہ وہ کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات کرنے کو تیار ہیں لیکن انڈیا نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا تو وہ اس حوالے سے کیا تبصرہ کریں گے؟‘

نیڈ پرائس نے جواب دیا کہ ’ہم طویل عرصے سے جنوبی ایشیا میں علاقائی استحکام کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔ ہم اسے ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا دونوں ہمارے پارٹنر ہیں اور دونوں کی اپنی انفرادی حیثیت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم طویل عرصے سے جنوبی ایشیا میں علاقائی استحکام کا مطالبہ کرتے آئے ہیں تاہم انڈیا اور پاکستان کے درمیان بات چیت، دائرہ کار اور کردار ان دونوں کا اپنا معاملہ ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ امریکہ پاکستان میں کسی بھی منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

پریس بریفنگ کے دوران اُن سے پوچھا گیا کہ ’سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے امریکہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے تو اگر وہ حکومت میں آئے تو کیا امریکہ ان کی پارٹی اور ان کے لیے دروازے کھولے گا؟

اس کے جواب میں نیڈ پرائس نے کہا کہ ’یقیناً پاکستان ہمارا شراکت دار ہے اور ہم پاکستان میں کسی بھی منتخب حکومت کے ساتھ کام کریں گے۔‘

نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ انڈیا اور پاکستان دونوں پاکستان کے شراکت دار ہیں
انہوں نے کہا کہ ہمارے کئی مشترکہ مفادات ہیں۔ ہم نے مختلف حکومتوں کے دوران اس کے ساتھ مضبوط تعلقات کی خواہش ظاہر کی ہے۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ’ہم نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ ہم حکومت کو اس کی پالیسیوں کے مطابق دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اصل سوال یہ ہے کہ آنے والی پاکستانی حکومت کس پالیسی کے تحت آگے بڑھتی ہے۔

طالبان کو ان کے کیے کی قیمت چُکانا پڑے گی‘

افغانستان میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کے باوجود وہاں کی حکومت کو اقوام متحدہ کی جانب سے امداد کی فراہمی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ ’پہلے میں واضح کر دوں کہ طالبان کو کسی قسم کی امداد نہیں دی گئی ہے بلکہ اصل میں افغانستان کے عوام کو دی گئی ہے۔‘

’ہم نے ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی امداد افغانستان کے عوام کو فراہم کی ہے تاہم وہ طالبان کی حکومت یا اس کے کسی ادارے کے ذریعے سے نہیں دی گئی۔‘

افغانستان میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی اور امریکی ردعمل سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’ان تمام معاملات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘

’میں اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ زیادہ تفصیلات بتا سکوں تاہم اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اتحادوں اور شراکت داروں کے ساتھ مناسب اقدامات کے لیے مشاورت جاری ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ طالبان کو ان کے کیے کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ اس حوالے سے تمام معاملات پر بات ہو رہی ہے۔‘

Exit mobile version