یوسفِ بے کارواں
یہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کا زمانہ تھا، کشور ناہید صاحبہ نے لاہور میں فیض احمد فیض کی سالگرہ کا اہتمام کیا جس میں اپنے وقت کے معروف شاعروں، ادیبوں، فلم اور ٹی وی کے اداکاروں اور بہت سے سیاستدانوں نے بھی شرکت کی۔
سالگرہ کی اس تقریب میں کچھ باغیانہ نظمیں سنائی گئیں اور آزادیِ اظہار پر پابندیوں کیخلاف تقریریں بھی کی گئیں۔ اگلے دن اداکار محمدعلی، شعیب ہاشمی، حمید اختر، ملک معراج خالد اور اعتزاز احسن کو گرفتار کرلیا گیا۔ حبیب جالب کی جگہ غلطی سے اداکار حبیب بھی پکڑے گئے اور مارشل لا حکومت نے دعویٰ کیا کہ ان سب غدارانِ وطن کو جلد ان کے انجام تک پہنچا دیا جائے گا۔ ان سب حضرات کو جیل میں بند کردیا گیا۔ اداکار محمد علی کی اہلیہ زیبا روزانہ بریانی کی ایک دیگ جیل بھجواتی تھیں جس سے دیگر قیدیوں کے علاوہ جیل کا عملہ بھی فیض یاب ہوتا تھا۔
فوجی حکام کو غدارانِ وطن کی جیل میں عیاشیوں کا پتہ چلا تو اداکار محمد علی کو لاہور سے میانوالی جیل بھجوا دیا گیا۔ مئی کا مہینہ شروع ہوا تو محمد علی کو جیل میں گرمی دانے نکل آئے۔ ہمارا فلمی ہیرو ان گرمی دانوں کے سامنے بے بس ہوگیا اور اس نے ایک معافی نامہ لکھ کر دیدیا۔ محمد علی کو فوری طور پر رہا کردیا گیا اور جنرل ضیاء الحق نے انہیں آرمی ہائوس راولپنڈی بلا کر اپنی بیٹی زین سے ملوایا جو ان کی بہت بڑی پرستار تھیں۔ اخبارات میں محمد علی اور زین ضیاء کی تصاویر شائع ہوئیں تو فوجی حکومت کی طرف سے اپنے سیاسی مخالفین کو غدار قرار دینے کے دعوے مذاق بن گئے۔