پا کستان

عمران خان کی بدلتی سیاست: حربہ یا واضح حکمت عملی کا فقدان؟

سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف کے 81 استعفے منظور کیے جانے کے بعد پی ٹی آئی نے اپنے دیگر 44 اراکین کے استعفے واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے سپیکر سے ان کو منظور نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری طرف پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت جو پہلے پی ٹی آئی کو اسمبلی میں واپس آنے کا کہہ رہی تھی، نہ صرف یہ کہ اب دھڑا دھڑ یہ استعفے منظور کر رہی ہے بلکہ صورت حال کو طول دینے کے لیے شارٹ سرکٹ کے نام پر پارلیمنٹ کو بھی تالے لگا بیٹھی ہے۔

اس چوہے بلی کے کھیل میں دونوں جماعتیں اپنے تئیں حریف کو چت کرنے کے لیے مختلف حربے اپنا رہی ہیں، لیکن بظاہر نظر یہ آتا ہے کہ دونوں کے پاس کسی واضح حکمت عملی کا فقدان ہے، اور وہ صرف چال در چال کے ذریعے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

بالخصوص پی ٹی آئی گزشتہ سال اپریل میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی وجہ سے حکومت سے ہاتھ دھونے کے بعد مختلف حربے استعمال کر چکی ہے لیکن ابھی تک پی ڈی ایم اور مقتدر حلقوں کو نئے انتخابات پر مجبور نہیں کر سکی۔ 

جب وزارت عظمٰی چھن جانے کے بعد گزشتہ برس مئی میں عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا اور تمام رکاوٹیں عبور کر کے ڈی چوک کے قریب پہنچ گئے تھے، تو اس وقت یہ لگتا تھا کہ وہ یہاں سے کوئی بڑا فیصلہ لے کر واپس جائیں گے، لیکن اس کی بجائے جب انہوں نے اچانک دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کو چھ روز کی مہلت دی تو اس وقت بھی ایک شائبہ تھا کہ وہ چھ روز بعد واپس آ کر دوبارہ احتجاج شروع کریں گے۔

 

وزارت عظمٰی چھن جانے کے بعد گزشتہ برس مئی میں عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا۔
وزارت عظمٰی چھن جانے کے بعد گزشتہ برس مئی میں عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا۔ )

لیکن پھر وہ کئی ماہ خاموش رہے اور بالآخر اکتوبر کے اختتام پر لاہور سے دوبارہ مارچ کا آغاز کیا۔ اس مارچ کے دوران تین نومبر کو ان پر فائرنگ ہوئی جس کے بعد کچھ عرصے کے توقف کے بعد انہوں نے اپنے تمام حامیوں کو 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کا حکم دیا۔

ایک مرتبہ پھر یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اب عمران خان نئے الیکشن کی تاریخ لیے بغیر احتجاج ختم نہیں کریں گے، لیکن انہوں نے اسلام آباد پر چڑھائی کی بجائے یہ مارچ ختم کر دیا اور اعلان کیا کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں توڑ کر حکومت کو الیکشن پر مجبور کریں گے۔

گزشتہ ہفتے انہوں نے یہ صوبائی اسمبلیاں تو توڑ دیں لیکن ساتھ ہی قومی اسمبلی میں واپسی کا بھی اعلان کر دیا تاکہ حکومت کے ساتھ گفت و شنید کے ذریعے اپنی مرضی کا نگران وزی اعظم لگوا سکیں۔

تاہم ان کے اس اقدام کے بھی ابھی تک واضح اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔ اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ حکومت فوری طور پر الیکشن کروانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ 

ٹی وی میزبان اور تجزیہ کار نادیہ نقی کہتی ہیں کہ ’عمران خان کی ایک کے بعد ایک حکمت عملی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وہ جلد سے جلد الیکشن کروانا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے پریشر میں آ کر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ان کی مرضی کے اقدامات کریں اور فوری الیکشن کروائیں۔‘

’عمران خان کو اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ اسمبلیاں ٹوٹ جانے کے بعد ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا، اور ایسا ہی ہوا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ سنہ 2014 کی طرح ان کو منتیں ترلے کر کے اسمبلی میں واپس لایا جائے گا لیکن اس مرتبہ پی ڈی ایم نے بھی مختلف حکمت عملی رکھی ہے۔

26 نومبر کو راولپنڈی جلسے میں عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں توڑ کر حکومت کو الیکشن پر مجبور کریں گے۔ : =
26 نومبر کو راولپنڈی جلسے میں عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں توڑ کر حکومت کو الیکشن پر مجبور کریں گے۔ :

نادیہ نقی کے مطابق عمران خان کا مقصد صرف ایک ہے کہ ’اسٹیبلشمنٹ ان کی بات پر آ جائے اور اس کے لیے انہوں نے مختلف حربے اپنائے۔ لیکن اب ان کے پاس نئی کوئی حکمت عملی نہیں بچی ہے۔‘

اُنہوں نے مزید کہا کہ ’عمران خان نے غلطیاں کی ہیں، دوسرے سیاست دانوں نے بھی کی ہیں لیکن اُنہوں نے ان غلطیوں سے سیکھا ہے، عمران خان کو اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا۔ ابھی تک یہی لگ رہا ہے کہ عمران خان کی ان غلطیوں کی وجہ سے نگران سیٹ اپ میں ان کی مرضی شامل نہیں ہو گی۔‘

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ عمران خان نے قومی اسمبلی چھوڑ کر غلطی کی۔ ان کا ماننا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت بڑے فیصلے کرتے ہوئے اپنی سوچ پر درست انداز میں عمل درآمد نہیں کر سکی اور اسی لیے کئی بار ان کے فیصلے ہدف تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں بنتے۔ 

تاہم وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان مختلف حکمت عملیاں اپنا کر موجودہ حکومت کو سنبھلنے کا موقع نہیں دینا چاہ رہے، اور ان کی خواہش ہے کہ وہ ان کے دباو میں رہے۔‘

’جیسا کہ 35 حلقوں سے الیکشن لڑنے کا معاملہ ہے۔ اب یہ تازہ ترین حکمت عملی بظاہر بہت عجیب لگتی ہے لیکن یہ علامتی ہے۔ اس کے ذریعے وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کے پیروکار پورے ملک میں موجود ہیں۔‘

لیکن مظہر عباس قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی واپسی کے معاملے پر پی ڈی ایم کے رویے کو بھی ’افسوسناک‘ قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ پہلے مستعفی ارکان کو استعفے واپس لینے کا کہتے رہے اور جب انہوں نے اس کا ارادہ کیا تو انہوں نے یہ منظور کرنا شروع کر دیے، کیونکہ حکومت کو عدم اعتماد کا خطرہ ہے۔

’اگر حکومت یہ استعفے منظور نہ کرتی اور پی ٹی آئی کی اسمبلی میں واپسی میں رکاوٹ نہ بنتی تو تحریک انصاف کو سیاسی طور پر از خود کئی جواب اور وضاحتیں دینا پڑتیں۔‘

تجزیہ کار مظہر عباس کا ماننا ہے کہ ’عمران خان اور ان کی جماعت بڑے فیصلے کرتے ہوئے اپنی سوچ پر درست انداز میں عمل درآمد نہیں کر سکی۔‘
تجزیہ کار مظہر عباس کا ماننا ہے کہ ’عمران خان اور ان کی جماعت بڑے فیصلے کرتے ہوئے اپنی سوچ پر درست انداز میں عمل درآمد نہیں کر سکی۔‘

پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر خزانہ تیمور جھگڑا ان تمام آرا کے برعکس اپنی جماعت کی اب تک کی سیاسی حکمت عملی کا دفاع کرتے ہیں۔ 

پیر کو انہوں نے بین الااقوامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے قائد عمران خان قومی اسمبلی کے قبل از وقت انتخابات کروانے میں کامیاب نہیں بھی ہوتے اور صرف خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ہی وقت سے پہلے الیکشن منعقد ہوتے ہیں تو یہ بھی ان کی کامیابی ہو گی، کیونکہ ان صوبوں میں ان کو استحکام مل جائے گا اور ان کی حکومتوں کو مزید پانچ سال مل جائیں گے۔

عمران خان کی نئی حکمت عملی ان کے مقررہ اہداف تک پہنچنے میں مدد گار ہو گی یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والے چند ہفتوں میں ہو گا، لیکن اس سے برآمد ہونے والے نتائج کو اپنے حق میں موڑنے اور آئندہ الیکشن جیتنے کے لیے وہ کوئی نیا انداز اپنائیں گے یا اب تک کی جارحانہ سیاسی حکمت عملی پر اکتفا کریں گے یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button